Prinday Ki Faryad By Iqbal
پر ندے کی فر ياد
بچو ں کے لئے
آتا ہے ياد مجھ کو گزرا ہوا زمانا
وہ باغ کی بہاريں وہ سب کا چہچہانا
آزادياں کہاں وہ اب اپنے گھونسلے کی
اپنی خوشی سے آنا اپنی خوشی سے جانا
لگتی ہے چوٹ دل پر ، آتا ہے ياد جس دم
شبنم کے آنسوئوں پر کليوں کا مسکرانا
وہ پياری پياری صورت ، وہ کامنی سی مورت
آباد جس کے دم سے تھا ميرا آشياناآتی نہيں صدائيں اس کی مرے قفس ميں
ہوتی مری رہائی اے کاش ميرے بس ميںکيا بد نصيب ہوں ميں گھر کو ترس رہا ہوں
ساتھی تو ہيں وطن ميں ، ميں قيد ميں پڑا ہوں
آئی بہار کلياں پھولوں کی ہنس رہی ہيں
ميں اس اندھيرے گھر ميں قسمت کو رو رہا ہوں
اس قيد کا الہی! دکھڑا کسے سنائوں
ڈر ہے يہيں قفسں ميں ميں غم سے مر نہ جاؤں
جب سے چمن چھٹا ہے ، يہ حال ہو گيا ہے
دل غم کو کھا رہا ہے ، غم دل کو کھا رہا ہے
گانا اسے سمجھ کر خوش ہوں نہ سننے والے
دکھے ہوئے دلوں کی فرياد يہ صدا ہے
آزاد مجھ کو کر دے ، او قيد کرنے والے!
ميں بے زباں ہوں قيدی ، تو چھوڑ کر دعا لے
Muhammad Iqbal (Urdu: محمد اِقبال) (November 9, 1877 –
April 21, 1938), He received his early education in his native town. He passed M.A from
university of Punjab in 1899.allama iqbal potry
in urdu and English so much famuse.allama iqbal write many poetry for students In that year he was appointed as a
professor in Arabic in Oriental college Lahore . He served as professor till
1905.
0 Reviews:
Post Your Review